Sunday, 1 September 2019

Save women's Lives

*_عورت  بچاؤ مہم_*
*آج کل ڈیلیوریز نارمل کیوں نہیں ھوتی ہیں ۔؟؟*
حالانکہ آج کل جدید ترین ہسپتال طبی ، سہولیات میسر ہیں ۔۔۔
جب کسی خاتون کو امید ھوتی ھے تو وہ فورا لیڈی ڈاکٹر کے پاس جاتی ھے
نو ماہ اس کے زیر نگرانی  باقاعدگی سے چیک اپ کرواتی ہیں
اس کی تجویز کردہ ادویات بھی کھاتی ہیں
ان کی مہنگی فیسیں بھی ادا کرتی ہیں ۔۔۔
مگر جب ڈیلیوری کا وقت آتا ھے تو پھر کیس نارمل کیوں نہیں ھوتا ۔۔؟؟
نو ماہ مسلسل فولک ایسڈ اور کیلشیم کی گولیاں کھانے ۔۔۔اورvenofer کی ڈرپس لگوانے کے باوجود ۔۔۔۔
ڈیلیوری کے وقت خون کی کمی کیوں ھو جاتی ھے۔۔۔؟؟

میرے عزیزو !
اس سوال کا جواب کچھ اس طرح ھے کہ
۔۔ڈیلیوری نارمل نہ ھونے کی سب سے بڑی وجہ۔۔۔ مسکولر ٹشوز کا  سخت ھوناھے
اور رطوبت تلیہ۔Lyphatic liquids کا کم ھونا ھے
*یاد رکھیں*
عورت کے جسم میں جتنی لچک اور Flexibility ھو گی بچہ کے اتنے ہی چانسز نارمل کے ھوں گے
اور جتنے سخت ھوں گے اتنا ہی آپریشن کا امکان زیادہ ھو گا

مندرجہ ذیل عوامل عورت کے جسم کے مسکولر ٹشوز کو سخت اور راستوں کو تنگ کر دیتے ہیں اور ان کے اندر کی رطوبت تلیہlympatic liquids بھی کم ھو جاتی ھیں
جو لبریکیشن کا کام کرتی ھیں
فطرت اور نیچر کے خلاف جب ہم چلے گٸے تو فطرت ہمیں سزا ضرور دے گی
یعنی فطرت سے روگردانی کی سزا کی وجہ سےہمیں آپریشن سے گزرنا پڑتا ھے ۔۔
‼قطع نظر اس کے کہ
بہت بڑی بڑی بلڈنگز ہیں ،
ہسپتال ہیں ۔۔۔
مہنگے ڈاکٹرز ہیں ۔۔
مہنگی ادویات اور مہنگے انجکشنز۔۔۔
اٸیر کنڈیشنڈ کمرے۔۔۔
*یاد رکھیں*
یہ سب کچھ کبھی بھی فطرت کا متبادل نہیں ھو سکتے۔۔۔
پیسے کا  لالچ اور ہوس اور انسانیت سے دوری۔۔۔۔
مریض کی زندگی اور صحت سے زیادہ مریض کی جیب پر نظر کا ھونا دوسری بڑی وجہ ھے۔۔۔
🧬 عورتوں کا سہل پسند ھونا  اور یہ تصور کہ حمل ھو جانے کے بعد کام نہیں کرنا
سارا دن فارغ بیٹھے رہنا۔۔۔مسکولر ٹشوز اور خصوصا اووری کے مسلز کو نرم اور flexible بنانے کے بجاٸے ۔۔stiff اور سخت بنا دیتا ھے ۔۔۔۔
فارغ سارا دن لیٹے رہنے کی بجاٸے اگر مخصوص ورزش خصوصا آخری مہینوں میں کی جاٸے
یا گھر کے کام کاج کیے جاٸیں ۔۔جیسے جھاڑو دینا ۔۔۔
ڈسٹنگ کرنا ۔۔۔
اس سے اووری کے مسلز کو حرکت ملے گی
جس سے حرارت پیدا ھوگی جو مسلز کو نرم کرے گی۔۔۔۔
خوراک میں جب ہم فولک ایسڈ یا venofer کے انجکشن لگاٸیں گے
تو یہ لوہا  ھونے کی وجہ سے جسم کے مسلز کو انتہاٸی زیادہ سخت  کرے گا
کیونکہ یہ مسلز کی خوراک ھے
جس سے راستہ کھلنے کے بجاٸے اور زیادہ تنگ ھو گا ۔۔۔
اس کی جگہ اگر
کالے چنے
مربہ ھڑڑ
مربہ املہ
مربہ بہی
سیب
پالک
ساگ
کلیجی
دودھ
انڈا
شھد
گھی
منقی
آڑو
لونگ
دارچینی
بادام
زعفران
کا استعال کیا جاٸے
تو اس سے جسم کو قدرتی فولک ایسڈ اور خون بھی وافر مقدار میں ملےگا
اور جسم کے مسکولر ٹشوز سخت ھونے کے بجاٸے طاقتور اور نرم ھو ں گے
خوبصورت بچے  پیدا ھوں گے ۔۔
اور گارنٹی سے کہتا ھوں لکھ کر دینے کو تیار ھوں بچہ بھی خوبصوت پیدا ھو گا ۔
دوسری طرف کیلشیم کی گولیاں یاد رکھیں ہڈیوں کو سخت کر دیتی ہیں ۔۔۔
نو ماہ بے دریغ کیلشیم کی گولیاں کھانے سے ماں اور بچے دونوں کی ہڈیاں سخت۔۔۔۔۔
تو آپ اندازہ کر لیں مسکولر ٹشوز بھی سخت ۔۔
ہڈیاں بھی سخت ۔۔
اسی لیے بعض اوقات کہہ دیا جاتا ھے کہ
‼ بچے کا سر بڑھا ھوا ھے
ماں کی ہڈی بڑھی ھوٸی ھے اپریشن ہی ھو گا۔۔۔
بھاٸی نو ماہ اندھا دھند گولیاں کھلا کھلا کر آپ نے نارمل ڈیلیوری کا چانس چھوڑا ہی کب ھے  ⁉
کیونکہ اس سے کماٸی زیادہ ھے آپریشن سے تو پیسے بننے ہیں نارمل سے کیا ملنا ھے ۔۔۔۔
۔۔۔اگر قدرتی کیلشیم
دودھ
دھی
انڈے
گھی
کھلایا جاتا تو گارنٹی سے کہتا ھوں کبھی کیلشیم کی کمی نہ آتی
اور ہڈیاں مضبوط تو ہوتیں مگر۔۔بڑھتی نہ
۔۔سخت نہ ھوتیں
‼ ہاں !!! دکان کی سیل کم ضرور ھو جاتی
کمیشن ضرور کم ھو جاتا۔۔۔
سٹور کی سیل کم ھو جاتی
آپس میں لڑاٸی پڑ جاتی
بنک بیلنس کم ھو جاتا ۔
آمدنی کم ھونے کی وجہ سے۔۔۔
کیونکہ عملی طور پر ہمارا یقین اللہ تعالی اور انسانیت پر زیرو ھے
تقریروں اور گفتگو میں 1000 فی صد ھے۔۔۔
ڈیلوری نارمل نہ ھونے کی ایک بڑی وجہ ۔۔۔
جیسا کہ میں نے بتایا ھے ہڈیوں کا سخت ھونا ۔۔
مسکولر ٹشوز کا سخت ھو کر ان میں لچک کا کم ھونا اور اس میں رطوبات صالح کی کمی کا ھونا ھے
جو لبریکیشن کا کام کرتی ہیں ۔۔۔ان سب کے لیے آخری ماہ۔۔ صدیوں سے آزمودہ فارمولہ جو ہماری ماٸیں استعمال کرتی آ رہی تھیں
ایک تو جسمانی مشقت اور ورزش تھیں
پاؤں کے بل۔۔۔۔تو دوسری اھم چیز
دیسی گھی ۔
چھواروں
زعفران
کا استعمال تھا ۔۔
دودھ میں ڈال کر۔۔۔
جس میں
فولاد
کیلشیم
گندھک
یعنی حرارت
وافر مقدار میں موجود ھوتی ہیں ۔۔
اس کا چھوڑ دینا ۔۔۔
اور سارا دن عورتوں کا بستر پر لیٹے رھنا
اور کیلشیم فولک ایسڈ کی گولیاں کھانا
اور venifer کے انجکشن لگوانا ھے۔۔۔
پھر ڈیلیوری کے روز اور دوران جو ظلم وستم ھوتا ھے ۔۔اللہ کی پناہ
ایک تو شرم و حیا کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں ۔۔
جسم دکھایا جاتا ھے ۔۔
چوڑے چمار تک جملے کستے ہیں ۔۔ ۔۔
سلفی بناٸی جارہی ھوتی ہیں..
*استغفراللہ۔۔۔۔۔۔۔*
پھر پیسے کے لالچ اور حرص میں ہم اس حد تک گر چکے ہیں کہ
۔۔نارمل کیسز کو کٹ لگوا کر جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا ھے۔۔۔
ایک اور ظلم
جس کی طرف بطور خاص توجہ دلانا چاہتا ھوں ۔۔۔
کہ بچہ جب ماں کے پیٹ میں ھوتا ھے
تو اسکا درجہ حرارت ٧٠ سے ٩٠ تک ھوتا ھے ۔۔۔
لیبر روم میں  اٸیر کنڈیشن ھونے کی وجہ سے ایک تو ماں کے عضلات سردی سے سکڑتے ہیں ۔۔۔یہ ساٸنس کا اصول ھے
کہ سردی سے چیزیں سکڑتی اور حرار ت سے پھیلتی ہیں۔۔۔۔
کمرے میں ١٦ درجہ کا ٹمپریچر ھونے سے رحم سکڑے گا یا پھیلے گا ؟؟
یقینا سکڑے گا
⁉ تو یہ چیز نارمل ڈیلوری میں معاون ھو گی یا رکاوٹ؟؟
یقینی جواب ھے رکاوٹ ۔۔۔
۔۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔
نازک مزاج ڈاکٹر صاحبان کو گرمی لگے گی ۔۔۔۔
لہذا مریض جاٸے بھاڑ میں
یا موت کے منہ ۔
آں جناب کی طبع نازک یہ برداشت نہیں کر سکتی
ڈاکٹر ھو کر اس کی ناک پر پسینہ آجائے ۔۔
اتنا بڑا ظلم ۔۔۔
حد تو یہ ھے کہ ڈاکٹر تو ڈاکٹر ہیں
لیبر روم کا صفاٸی والا عملہ
اس کا نخرہ
اور اس کا رعب
اللہ کی پناہ ۔۔۔
وہ آسمان پہ ھوتا ھے۔۔۔
مگر سلام ھے
ہماری ان ماؤں اور بہنوں کو جو لیبر روم میں انگھیٹیاں جلاکر پسینوں پیسنی ھو کر فطری عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی تھیں
گھر میں ہی۔۔۔۔
اسی سلسلے میں ایک اور مسٸلہ بچے کا سانس اکھڑنا اور incobeter میں ڈالنا۔۔۔۔۔
پیارے بھاٸی !
جب بچہ یک دم تقریبا ٨٠ ۔۔٩٠ کے ٹمپریچر سے یک دم سولہ کے ٹمپریچر پے آئے گا
تو اس کا سانس نہیں اکھڑے گا تو اور کیا ھو گا۔۔؟؟ ⁉
پھر درد کے انجکشن لگوانے کی سزا بلکہ بھینسوں والے انجکشن پابندی کے باوجود لگاٸے جاتے ہیں ۔۔
جو عورت کو ساری زندگی کمر درد کی صورت بھگتنا پڑتی ھے وہ ایک الگ کہانی ھے۔۔۔
پھر ایک ایک دن کا گننا اور ایک دن بھی اوپر نہ جانے دینا کہ گاہک کسی اور دکان کا رخ نہ کر جاٸے ۔۔۔
ظلم پہ ظلم ۔۔۔ ‼
ڈاکے پہ ڈاکہ ۔۔۔ ‼
اس سلسلے میں صرف اتنا عرض کروں
کہ پھل جب پکتا ھے تو خود بخود نیچے گرتا ھے۔۔
دردیں قدرتی اور فطری ھونی چاہیے ۔
یاد رکھیں فطرت انسان کی دوست ھے دشمن نہیں
مصنوعی دردیں کہ ۔۔
گاہک دوسری دکان پر نہ چلا جاٸے کے خوف سے بھینسوں والے ٹیکے لگائیں گے
تو فطرت کے ساتھ بھیانک مذاق ھے پھر نتاٸج تو بھگتنا پڑیں گے ۔۔۔۔۔
سزا تو ضرور ملے گی
فطرت کسی کو معاف نہیں کرتی۔۔۔
پھر یاد رکھ لیں
بچوں کے اندر جتنے کیسز خون کی کمی کے آرہے ہیں ۔۔۔
وہ سب کے سب مصنوعی فولک ایسڈ اور مصنوعی کیلشیم کی وجہ سے ہیں
‼ کیو نکہ اس سے تلی spleen کا فعل متاثر ھوتا ھے
جس سے وہ انیمیا کا شکار ھو جاتے ہیں ۔
۔۔ *المختصر* ۔۔۔۔
فطرت سے جتنا دور ہٹیں گے اتنی ہمیں سزا زیادہ ملے گی
اس موضوع پر بہت کچھ ھے کہنے کو شاید اتنا بھی ہضم نہ ھو دکانداروں کو۔۔۔
لیکن میرے پیارے بھاٸیو!
یہ ہماری ماؤں ، بہنوں بیٹیوں کی زندگیوں کا مسٸلہ ھے
اس کو اتنا like .اور share کیجیے comment کیجیے کہ یہ
*عورت بچاو مہم*
بن جاٸے ۔۔۔
اور حکمران scandanaviyan belt
کی طرح سخت قوانین بنانے پر مجبور ھو جاٸیں
سوشل میڈیا  کی طاقت سے جہاں پر
خاوند لیبر روم میں موجود ھوتا ھے۔۔۔
ہمارے ہاں تو اس کی زیادہ ضرورت ھے ۔۔
حتی المقدور نارمل کیس کی کوشش کی جاتی ھے آخری حد تک۔۔
ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ھو سکتا ⁉
مصنوعی دردوں کے انجکشن نہیں لگواٸے جاتے ۔۔
بلکہ قدرتی دردوں کو برداشت کرنے کا کہا جاتا ھے ۔۔۔
ھمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ھو سکتا ۔۔۔⁉
*فرانس میں ھر حاملہ خاتون اور بچوں کو قانونا چنے روزانہ کھلاٸے جاتے ہیں*
*فولاد کی کمی پوری کرنے کیلیے ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ھو سکتا ؟؟*

Obesity Create Diseases

موٹاپا

آپ کا وزن دن بدن بڑھ رہا ہے اور طاقت کم ہوتی جارہی ہے، اُٹھنا بیٹھنا اور تیز چلنا مشکل ہوگیا ہو، کام کاج کو جی نہیں کرتا تو گھبرانے کی ضرورت نہیں، بس ذرا سی توجہ کی ضرورت ہے۔ ہمارے جِسم میں رطوبات کے اخراج اور اجتماع کے نظام پائے جاتے ہیں، انہیں دو نظام کی کمی بیشی سے موٹاپا اور دُبلا پن کی عِلامات کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

نظامِ جاذبہ: یہ نظام ہمارے جِسم رطوبات کو روک کر رکھتا ہے اور اِخراج کا عمل سُست کر دیتا ہے۔ مردوں میں پیشاب اور پسینہ کی اِخراج سُست ہو جاتا ہے تو دُبلا پن ختم ہو کر موٹاپا شروع ہو جاتا ہے۔ عورتوں میں حیض  اور پیشاب و پسینے کا اِخراج کم ہو کر موٹاپا ہو جاتا ہے۔

نظامِ ناقلہ: اس نظام سے جِسم سے فاضل مواد پسنہ، پیشاب اور حیض وغیرہ کا اِخراج ہوتا ہے۔ اگر طبعی افعال کے مطابق یہ نظام چلتا رہے تو کبھی موٹاپا نہیں آتا۔

موٹاپا کی اِقسام: موٹاپا کی دو اِقسام ہیں، ایک نرم موٹاپا جو حرارت کی زیادتی کی وجہ سے جِسم پھلاؤ میں آکر موٹاپے کا شکار ہو جاتا ہے، جِسم نرم اور کُپا کی طرح ہو جاتا ہے۔ دوسرا سخت موٹاپا چربی والا، یہ موٹاپا جِسم میں رطوبات کے اجتماع سے ہوتا ہے، جس کی وجہ سے جِسم میں چربی کی زیادتی ہو جاتی ہے اور جِسم میں سختی ہوتی ہے۔ یہی چربی والا موٹاپا خواتین میں بندشِ حیض اور بے اولادی کا سبب بنتا ہے۔


2 موٹاپے کا عِلاج


اوّل قِسم کے موٹاپے میں حرارت کی زیادتی ہوتی ہے، اس کے لیے ہلیلہ سیاہ بریاں 50 گرام، آملہ 20 گرام، پھٹکڑی بریاں 10 گرام پیس کر باریک پوڈر بنا لیں۔ آدھا چمچ دن میں تین بار استعمال کریں۔

2 موٹاپے کا عِلاج

دوئم قِسم کے موٹاپے کے لیے اس میں چربی اور رطوبات کی زیادتی ہوتی ہے، زنجبیل، سناءمکی ہر ایک 100 گرام، نوشادر 50 گرام، فلفل سیاہ 25 گرام، ریوند عصارہ 20 گرام پیس کر پوڈر بنا لیں۔ آدھا چمچ چائے والا دن میں تین مرتبہ استعمال کریں۔

نوٹ: موٹاپا ہر دو قِسم میں پیاس لگنے پر پانی نیم گرم کا استعمال کریں، ٹھنڈا پانی ہرگز استعمال نہ کریں۔ چاول، آلو، مِٹھائیوں اور چٹ پٹی اشیاء ترک کر دیں۔ جوس، لسّی، املی آلوبخارے کا شربت، گنے کا جُوس، نمکین سکنجبین اور ادرک، چھوٹی الائیچی کا قہوہ استعمال کریں۔ ایسی چیزیں استعمال کریں جس کے استعمال سے پیشاب زیادہ خارج ہو، جِسم میں نچوڑ پیدا کرے، جِسم سے موٹاپا کم ہو جلاب آور اشیاء استعمال نہیں کرنی۔ (

موٹاپا کم کرنے کیلئے....!!!!!

پیدل چلنا معمول بنائیں 
مائعات ہمیشہ ٹھوس سے قبل استعمال کریں 
کھانا زندہ رہنے کے لئے کھائیں نہ کہ کھانے کیلئے زندہ رہیں 
کھانے کے کم از کم  30 منٹ بعد کچھ بھی پئیں 

ناشتہ ۔۔

ابلے انڈے کی سفیدی + قہوہ= دارچینی. سفید زیرہ کلونجی. پودینہ. سبز الائچی. لیموں  (ردوبدل حسب ضرورت) کچھ ہلکا پھلکا اور بھی ساتھ یا 4 ابلی بوٹیاں (کوئی بھی گوشت) 
 صبح  7 بجے 10 بجے عصر 4 بجے رات 10 بجے اگر پچا سکیں(وقت میں ذرا ردوبدل ممکن ہے)

  ظہرانہ 

سلاد.. بند گوبھی. کھیرا. مولی گاجر. شلجم. ادرک. پیاز.لہسن.پودینہ. دھنیا. لیموں وغیرہ 

عشائیہ 

آدھی خشک چپاتی  کسی بھی ابلی سبزی. سبز یا سیاہ مرچ ساتھ  
.چاروں بار گوشت اچھی طرح چبا چبا  کر کھائیں

پرہیز.. 

چ سے شروع ہونے والی سب غذائیں بند کردیں
 مثلاً. 
چینی چائے  چربی چکنائی. چکن ( برایلر چوچا)  
چاول چاول کے سب قبیلے
چنے چنے کے سب قبیلے 
چاٹ چٹنیاں چٹخارے چسکے چٹورے 

فاکہات..
منقی. امرود آڑو لیموں استعمال کریں 

بازار سے ملنے والے مرکبات عرقیات پھکیوں اور دوسرے ملغوبات وغیرہ عموماً نقصانات کا باعث ہو سکتے ہیں

خواتین کا اضافی وزن ان کی صحت کا بڑا دشمن

خواتین میں وزن کابڑھناانتہائی حساس مسئلہ سمجھاجاتاہے۔اگرانھیں صرف اتناکہہ دیاجائے کہ آپ دبلی لگ رہی ہیں تو وہ خوش اوراگرانھیں موٹا کہہ دیاجائے تو ان کے ڈپریشن کاآغاز ہوجاتاہے۔درحقیقت خواتین کی اکثریت اس بات سے ناواقف ہوتی ہیں کہ موٹاپاصرف ان کی ظاہری خوبصورتی کوختم نہیں کرتا بلکہ انھیں وہ اندرونی طور پربھی متاثرکرتاہے۔

عموماً موٹاپے کے صرف ظاہری نقصانات کوہی مدنظررکھا جاتا ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اضافی وزن کسی بھی عورت کی صحت کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ اضافی وزن سے کوئی ایک بیماری نہیں بلکہ لاتعداد بیماریاں اپنی جگہ بناتی ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔

گھٹنوں کا درد
اضافی وزن کاسب سے زیادہ بوجھ آپ کے جوڑوں پرپڑتاہے۔ جواپنی سکت سے زیادہ وزن اٹھانے کے سبب دکھنے لگتے ہیں۔جب کسی گدھے پربھی اضافی بوجھ ڈال دیاجاتاہے تو اس سے بھی چلنادوبھرہوجاتاہے توانسانی جوڑجونازک ہڈیوں سے بنے ہوتے ہیں وہ کیسے ہرمنٹ اورہرگزرتے سیکنڈ میں اضافی وزن اٹھاسکتے ہیں۔جوبھی خواتین گھٹنوں کے درد کاشکارہیں انھیں چاہئے کہ اگران کاوزن زیادہ ہے تو ہرطرح کے علاج کے ساتھ اپناوزن بھی کنٹرول کریں۔

شوگر
شوگرجوایک دائمی مرض ہے وزن کی زیادتی کی وجہ سے آپ کاہم سفربن سکتاہے۔وزن کم کرنااوراسے کنٹرول کرنااتنامشکل نہیں جتناہم سمجھتے ہیں ۔اگرآپ خوش وخرم زندگی گزارناچاہتی ہیں اوراپنے بچوں اورباقی تمام گھروالو ں کے ساتھ بھرپورزندگی جیناچاہتی ہیں تو اپنے وزن کوکنٹرول کریں۔اس پرچیک اینڈ بیلنس ضروررکھیں۔شوگرایک ایسی بیماری ہے جواگرایک دفعہ ہوجائے تو زندگی بھرآپ کونقصان پہنچاتی ہے۔

ایڑھیوں کادرد
اکثروبیشترخواتین کے ساتھ یہ مسئلہ رہتاہے اورگزرتے وقت کے ساتھ اس کی شدت میں اتنااضافہ ہوتاجاتاہے کہ ان کے لئے صبح بسترسے اٹھ کرچلناپھرنامحال ہوجاتاہے۔ویسے تو ہرمرض کے بہت سی وجوہات ہوتی ہیں لیکن ایڑھیوں کے درد کی ایک وجہ وزن کی زیادتی ہے ۔ایڑھیا ں جودن بھرآپ کے جسم کابوجھ اٹھاتی ہیں آخرکارتھک جاتی ہیں جس کے باعث دکھنے لگتی ہیں۔ڈاکٹرکے پاس ضرورجائیں اورعلاج بھی ضرورکروائیں لیکن نوٹ کریں کہ کہیں آپ کاوزن آپ کے قد اورعمرسے زیادہ تو نہیں۔

دل کے امراض

مردوں کے ساتھ خواتین بھی اب دل کے امراض کازیادہ شکارنظرآتی ہیں۔دل کی بیماری کے بہت سے رسک فیکٹرز ہیں جن میں سے موٹاپا ایک ہے۔سانس کاپھولنا،دل کی دھڑکن تیز ہونا،پسینے چھوٹنایہ سب وزن کی زیادتی کے باعث ہوتاہے۔ایسی صورت میں متوازن غذائیں اورورزش دل کی صحت کی بحالی کے لئے ضروری ہیں۔

حمل کانہ ٹھہرنا
بچوں کی پیدائش یعنی حمل ٹھہرنے کے معاملے میں موٹاپابھی اہم کرداراداکرتاہے۔ اگرخواتین کاوزن زیادہ ہوتاہے تو انھیں حمل ٹھہرنے میں وقت لگتاہے۔موٹاپے کی صورت میں ماہواری کانظام بھی متاثرہوتاہے۔فیٹ جمع ہونے کی صورت میں یہ تمام معاملات مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔لہٰذاکوشش کریں کہ وزن کوکنٹرول کریں۔

ڈپریشن
جس عورت کابھی وزن زیادہ ہوتو اسے ڈپریشن کاشکارہونے کے لئے کسی دوسری پریشانی کی ضرورت نہیں پڑتی۔جب وزن بڑھتاہے تو ساتھ رہنے والے افراد آپ کویہ بات بارباربتاکرخود ہی ڈپریشن میں مبتلاکردیتے ہیں۔ڈپریشن کی صورت میں مزید خوراک بڑھ جاتی ہے جوصحت کی خرابی اورجسمانی بدحالی کاسبب بنتی ہے۔ذہنی اورجسمانی صحت کے لئے جوبھی کھائیں صحت بخش کھائیں اورہمیشہ چاک وچوبندرہیں ۔

اعتماد کی کمی
کوئی بھی خاتون جوموٹاپے میں مبتلاہو توان کااعتماد ڈگمگاجاناکوئی بڑی بات نہیں ہے۔ایسی صورت میں لوگوں کوفیس کرناانھیں مشکل لگتاہے۔ڈریس کی سلیکشن میں انھیں پریشانی کاسامناتوکرناہی پڑتاہے ساتھ ساتھ لوگوں کی باتیں بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں۔یہ تمام صورتحال ان کوذہنی پریشانی میں مبتلاکردیتی ہے۔آگے جاکریہ خواتین دوسروں سے دوررہنے کی کوشش میں معاشرہ سے کٹ کررہ جاتی ہیں۔اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ وزن کم کرنے کی کوشش کریں نہ کہ اپنی زندگی کومحدود کرلیں۔

بڑھتی عمر
وزن زیادہ ہونے کی صورت میں خواتین اپنی عمرسے کئی سال بڑی نظرآتی ہیں یایوں کہہ لیں توغلط نہ ہوگاکہ وزن عمرمیں کئی سال کااضافہ خود بخود کردیتاہے۔وزن کے بڑھتے ہی کئی بیماریاں گھیراتنگ کرلیتی ہیں۔اٹھنابیٹھنا،چلناپھرناسب محال ہوجاتاہے۔اگربڑھے ہوئے وزن کوکم کرلیاجائے تب ہی کوئی بھی خاتون نمایاں نظرآتی ہیں اورزندگی کوبھرپورطریقے سے جی پاتی ہیں۔وزن کاعمراورقد کے حساب سے ہونابے حد ضروری ہے تاکہ صحت مندزندگی گزاری جاسکے۔

Depression Side Effects

ذہنی دباؤ آپ کی خوبصورتی کو کس طرح متاثر کرتا ہے

ذہنی دباؤ ناصرف ہمارے معمولات زندگی کو متاثر کرتا ہے بلکہ یہ ہماری صحت اور خوبصورتی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔بے خوابی ،جسم میں پانی کی کمی اور جنک فوڈز کھانے کی خواہش بھی اسٹریس کے ساتھ مل کر ہماری جلد اور بالوں کی صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آپ کی خوبصورتی کو لاحق بعض مسائل کی اصل وجہ ذہنی دباؤ ہوتا ہے۔
ذہنی دباؤ آپ کی جلد اور بالوں کو کمزور کرتا ہے*
ذہنی دباؤ نیند میں کمی کا باعث بنتا ہے جبکہ صحت مند بالوں اور جلد کے لئے اچھی نیند بہت ضروری ہے۔ذہنی دبائو اور بے خوابی مل کر قوت مدافعت کو کمزور کردیتے ہیں اس طرح جسم میں موجود کیمیکلز اپنا کام صحیح طرح انجام نہیں دے پاتے جس کی وجہ سے آنکھیں اور جلد بے رونق نظر آتی ہیں ۔
جلد کی سوزش کو بڑھاتا ہے*
ذہنی دباؤ جسم میں ایسے ہارمونز بناتا ہے۔جو خون کا رخ جلد سے ہٹا کر مسلز اور دوسرے اعضاء کی طرف کردیتے ہیں ۔خاص طور پر شدید ذہنی دباؤ آپ کی جلد کو آکسیجن اور ضروری غذائیت سے محروم کردیتا ہے جس کی وجہ سے جلد مختلف مسائل جیسے ایکنی کا شکار ہوجاتی ہے۔
جسم میں خشکی پیدا کرتا ہے*
ذہنی دبائو کے نتیجے میں آپ کی جلد پانی کی کمی،سوزش ،بے رونقی،ایکنی اور جھائیوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ پریشانی کی وجہ سے جلد پر موجود مردہ خلیات کی تہہ پتلی ہو جاتی ہے اور اس میں باریک سوراخ ہو جاتے ہیں جو الٹرا وائلٹ شعائوں سے جلد کی حفاظت نہیں کر پاتے ۔ذہنی دباؤ سے ناصرف جلد پر دانے پھوٹ پڑتے ہیں بلکہ اس سے سیلز کی جھلی میں بھی سوراخ ہو جاتے ہیں جن میں سے پانی رستا رہتا اور اس کی وجہ سے جلد پر لکیریں پڑنے لگتی ہیں۔

بال جھڑنے لگتے ہیں *
ذہنی دباؤ کی وجہ سے خون کی نالیاں دبنے لگتی ہیں جس کے نتیجے میں بالوں کی جڑوں کومناسب آکسیجن،منرلز اور وٹامنز نہیں مل پاتے جو صحت مند بالوں کی نشونماء کے لئے نہایت ضروری ہیں۔جب آپ زیادہ تھکے ہوئے ہوتے ہیں تو جسم زیادہ انرجی استعمال کرنا شروع کردیتا ہے اور ضروری وٹامنز اور غذائیت کا رخ جسم کے اہم حصوںیعنی دل،دماغ اور پھیپھڑوں کی طرف کردیتاہے۔اور سرکی طرف ان وٹامنز کا رخ کم ہوجاتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگوں میں ذہنی دباؤ کی نشاندہی ان کے گنج پن،پتلے بالوں،بالوں کی چمک میں کمی یا بدرونقی سے ہوتی ہے۔شدید ذہنی دباؤ کا شکار لوگ بالچھڑ اور چنبل جیسی جلدی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے بال کمزور اورخراب ہوجاتے ہیں اور آسانی سے ٹوٹنے لگتے ہیں ۔

خراب عادات کا باعث بنتا ہے*
شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے بے دھیانی میں بالوں کو گھمانے اور ناخن چبانے کی عادت بھی پڑ جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے بالوں کو نقصان پہنچتا ہے اور بال ٹوٹتے رہتے ہیں اور اکثرگنج پن بھی ہو جاتا ہے۔

Saturday, 31 August 2019

save your marriage life



اپنی شادی کو کیسے بچایا جائے؟

زندگی ایک سفر ہے اور اس سفر میں میاں بیوی ایسے ساتھی ہیں جن کی منزل بھی ایک ہوتی ہے اور راستہ بھی ۔دونوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور ایک دوسرے کی دکھ سکھ میں برابر کی شراکت داری کا جذبہ ہو تو پتا بھی نہیں چلتا اور سفر کٹ جاتا ہے ۔لیکن جب بات بات پر تکرار اور دوسرے کو زچ کرنے کے مقابلے جیسی صورت حال ہو تو یہ زندگی ایسا سفر بن جاتی ہے کہ جیسے کانٹوں پر ننگے پاؤں چلنا ہو ۔

شادی کے کچھ عرصے تک تو میاں بیویکے درمیان جو اُلفت اور محبت رہتی ہے وہ محبت کے جذبات دن گزرنے کے ساتھ ساتھ سرد مہری میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ایک چھت کے نیچے اور ایک ہی چار دیواری میں زندگی بسر کرنے کے باوجود اجنبیت کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے جیسے ریلوے اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں بیٹھ کر ٹرین کی آمد کا انتظار کرنے والے دو مسافروں کے درمیان حائل ہوتی ہے ۔

شادی میں ناکامی کی وجوہات
شادی شدہ زندگی میں سرد مہری پیدا ہونے کی دو بنیادی وجوہات ہیں ۔
۱۔ ناپسندیدہ یا تکلیف دہ باتوں یا حرکات کا بار بار دہرانا
۲۔ دوسرا خود کو وقت کے ساتھ ساتھ ڈھالنے کی خواہش کا فقدان
بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان شدید عارضی اور مستقل نوعیت کی سرد مہری کا سبب معاشی حالات اور مزاجوں کی عدم ہم آہنگی بھی ہو سکتا ہے ۔اکثر شادی ناکام ہونے کی ایک وجہ کسی ایک فریق کا دوسرے پر اپنی برتری جمانے کا رویہ اپنانا ہو سکتی ہے ۔ہر فیصلے کا اختیار ایک ہی فرد کے پاس رہنا اچھی بات نہیں ہوتی۔ کسی بھی فیصلے میں دونوں کا متفق ہونا ضروری ہے ۔خاص طور پر زندگی کے بڑے فیصلوں میں دونوں کو ایک دوسرے کی رائے کو اہمیت دینی چاہیے ۔
شادی کے ناکام ہونے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مگر کبھی کبھی صرف معمولی سی نوک جھوک بھی رشتہ ٹوٹنے کا باعث بن جاتی ہے ۔

مفید مشورے
۔ میٹھے بول
میاں بیوی کے درمیان تلخی اور کڑواہٹ ختم کرنے کے لئے یوں تو اب تک کوئی دوا ایجاد نہیں ہوئی ہے ۔ہاں صرف پیار بھرے دو بول وہ کام کرتے ہیں جو زہر کے لئے تریاق سر انجام دیتا ہے ۔ اچھے ماحول میں خلوص دل سے کہے محبت بھرے جملے حالات کو ہی بدل دیتے ہیں ۔

۔ رائے کا احترام
تسلط جمانا مردوں کا اسٹائل تصور کیا جاتا ہے اور زبان کی قینچی چلانا عورت کا کام ۔لیکن صورت حال جب زیادہ خطرناک ہو جاتی ہے جب عورت سے اس کی رائے دینے کا اختیار چھین لیا جائے یا دوسری جانب مرد سے اس کی مرکزی حیثیت چھین لی جائے ۔

۳۔فرار اختیار نہ کی جائے
بعض افراد گھر میں امن قائم رکھنے کے لئے اختلافی امور سامنے آنے کے باوجود احتجاج بند کرنے کے بجائے طویل خاموشی اختیار کر لیتے ہیں یہ اچھی علامت نہیں ہے ۔اس سے رشتوں اور تعلقات میں مزید خلیج واقع ہو جاتی ہے ۔اچھی شادیوں میں دونوں فریق مسائل پر بات چیت کرتے ہیں۔مستقل سردمہری اور طویل خاموشی بعض اوقات دھماکہ خیز واقع ہو سکتی ہے ۔اسی طرح حالات بگڑنے کی صورت میں میاں کا گھر سے چلے جانا یا عرت کا میکہ کی طرف رخ کرنا حالات کو مزید بگاڑ سکتا ہے ایک راہ کے مسافر دو راہوں کے مسفر بن جاتے ہیں اور بعض لوگ اس دوری کا فائدہ اُٹھاتے ہیں اور غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں ۔

۔ خاموشی غصہ کا حل ہے
اگر دوسرے کے غص ی کو دیکھ کر فریق چپ ہو جائے تو صورت حال کو بگڑنے سے بچایا جا سکتا ہے ۔تاہم یہ مت سوچیں کہ ہر مرتبہ چپ ہونا دوسرے کا ہی کام ہے ۔
اکثر میاں بیوی غصہ میں ایک دوسرے کے سامنے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اُنھیں آئڈیل بیوی یا شوہر نہیں ملا مرد حضرات خوبصورت بیوی نہ ملنے کا اورعورتیں سمجھدار منظم شوہر نہ ملنے کا طعنہ دیتی نظر آتی ہیں ۔جس سے رشتہ میں تلخی آتی ہے ۔

۔سہی وقت کا انتخاب
اظہار چاہے غصہ کا ہو یا محبت کا دونوں صورتوں میں الفاظوں سے زیادہ سہی وقت کا انتخاب ضروری ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ غلط وقت پہ کہی سہی بات بھی غلط اور کبھی سہی وقت پر کہی غلط بات بھی سہی لگنے لگتی ہے ۔الفاظ کے مناسب چناؤ میں دیر ہو سکتی ہے جب کہ رویہ سے کسی بات کا اظہار آسانی سے کیا جاسکتا ہے ۔موقع محل کے حساب سے اپنے جذبات کا مناسب اظہار بہت سی پیچیدگیوں سے بچا سکتا ہے ۔

۔ مزاج میں توازن
بہت سے گھر صرف اس لئے تباہ ہو جاتے ہیں کہ ایک فریق کی جانب سے پیار کی بات ہو رہی ہوتی ہے تو دوسری جانب اس کا اُلٹا ردعمل ہو رہا ہوتا ہے ۔چوبیس گھنٹے ماتھے پر تیوری چڑھائے رکھنے کے بجائے ایک دوسرے کی باتوں ،شکووں اور مشوروں کو تحمل اور ٹھنڈے مزاج سے سننا چاہئے ۔اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو اس بات کا بتنگڑ بنانے کے بجائے اسے برداشت کر کے ایک دوسرے کو یہ بتانا چاہئے کہ اس غلطی سے کیسیس بچا جاسکتا ہے اور مستقبل میں ایسا کیا کریں کی غلطی کا اعادہ نہ ہو سکے۔

۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال
* بد سے بد ترین حالات میں بھی ایک دوسرے کی سالگرہ منانا یا دیگر اہم موقعوں پر مبارکباد یا تحائف دینا مت بھولیں ۔
* کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت اپنی غلطیوں پر نظر ثانی ضرور کریں ۔
* میاں بیوی کا ایک دوسرے کی تعریف کرنا یا زبانی محبت کا اظہار کرنا دونوں فریقین کے لئے ضروری ہے ۔
* اپنے رشتہ کو اس قدر کنارے پر نہ لائیں کہ واپس پلٹنا مشکل ہو جائے ۔
* ناراضگی میں بھی کسی ایک فریق کی بیماری میں بھی دلجوئی اور مزاج پرسی کرنا مت چھوڑیں ۔
* ناراضگی میں منانے کے لئے پہل آپ کریں کیوں کہ یہ وہ بندھن ہے جس میں زرا سی کوشش بھی کام کر جاتی ہے ۔
* تنازعات پر مستقل بحث کرنے کے بجائے اُسے نظر انداز کرنے کی کوشش کریں ۔
* ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کریں ۔
* اپنے رشتہ پر کسی کے مشورے یا رائے کا فوری اطلاق مت کریں ۔

Monday, 21 November 2016

Ilm Adad Complete Book



 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


















 



 



























































































































































































































































































Search